Home ≫ ur ≫ Surah Al Hujurat ≫ ayat 12 ≫ Translation ≫ Tafsir
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ٘-اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ وَّ لَا تَجَسَّسُوْا وَ لَا یَغْتَبْ بَّعْضُكُمْ بَعْضًاؕ-اَیُحِبُّ اَحَدُكُمْ اَنْ یَّاْكُلَ لَحْمَ اَخِیْهِ مَیْتًا فَكَرِهْتُمُوْهُؕ-وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ تَوَّابٌ رَّحِیْمٌ(12)
تفسیر: صراط الجنان
{یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ: اے ایمان والو! بہت زیادہ گمان کرنے سے بچو۔} آیت کے اس حصے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کو بہت زیادہ گمان کرنے سے منع فرمایا کیونکہ بعض گمان ایسے ہیں جو محض گناہ ہیں لہٰذا احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ گمان کی کثرت سے بچا جائے۔( ابن کثیر، الحجرات، تحت الآیۃ: ۱۲، ۷ / ۳۵۲)
امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : (یہاں آیت میں گمان کرنے سے بچنے کا حکم دیا گیا) کیونکہ گمان ایک دوسرے کو عیب لگانے کا سبب ہے ،اس پر قبیح افعال صادر ہونے کا مدار ہے اور اسی سے خفیہ دشمن ظاہر ہوتا ہے اور کہنے والا جب ان اُمور سے یقینی طور پر واقف ہو گا تو وہ ا س بات پر بہت کم یقین کرے گا کہ کسی میں عیب ہے تاکہ اسے عیب لگائے ،کیونکہ کبھی فعل بظاہر قبیح ہوتا ہے لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا اس لئے کہ ممکن ہے کرنے والا اسے بھول کر کررہا ہو یا دیکھنے والا غلطی پر ہو۔( تفسیرکبیر، الحجرات، تحت الآیۃ: ۱۲، ۱۰ / ۱۱۰)
علامہ عبداللہ بن عمر بیضاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :یہاں آیت میں گمان کی کثرت کو مُبْہَم رکھا گیا تاکہ مسلمان ہر گمان کے بارے میں محتاط ہو جائے اور غور و فکر کرے یہاں تک کہ اسے معلوم ہو جائے کہ اس گمان کا تعلق کس صورت سے ہے کیونکہ بعض گمان واجب ہیں ،بعض حرام ہیں اور بعض مُباح ہیں ۔( بیضاوی، الحجرات، تحت الآیۃ: ۱۲، ۵ / ۲۱۸، ملخصاً)
گمان کی اَقسام اور ان کا شرعی حکم:
گمان کی کئی اَقسام ہیں ،ان میں سے چار یہ ہیں : (1)واجب ،جیسے اللہ تعالیٰ کے ساتھ اچھا گمان رکھنا۔ (2)مُستحَب، جیسے صالح مومن کے ساتھ نیک گمان رکھنا۔ (3)ممنوع حرام ۔جیسے اللہ تعالیٰ کے ساتھ برا گمان کرنا اور یونہی مومن کے ساتھ برا گمان کرنا۔ (4)جائز ،جیسے فاسقِ مُعْلِن کے ساتھ ایسا گمان کرنا جیسے افعال اس سے ظہور میں آتے ہوں ۔
حضرت سفیان ثوری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : گمان دو طرح کا ہے، ایک وہ کہ دل میں آئے اور زبان سے بھی کہہ دیا جائے ۔یہ اگر مسلمان پر برائی کے ساتھ ہے تو گناہ ہے ۔دوسرا یہ کہ دل میں آئے اور زبان سے نہ کہا جائے، یہ اگرچہ گناہ نہیں مگر اس سے بھی دل کو خالی کرنا ضروری ہے۔( خازن، الحجرات، تحت الآیۃ: ۱۲، ۴ / ۱۷۰-۱۷۱، مدارک، الحجرات، تحت الآیۃ: ۱۲، ص۱۱۵۵، ملتقطاً)
یہاں بطورِ خاص بد گمانی کے شرعی حکم کی تفصیل ملاحظہ ہو،چنانچہ
اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :مسلمان پر بدگمانی خود حرام ہے جب تک ثبوتِ شرعی نہ ہو۔( فتاوی رضویہ،۶ / ۴۸۶)
دوسرے مقام پر فرماتے ہیں :مسلمانوں پر بدگمانی حرام اور حتّی الامکان اس کے قول وفعل کو وجہ ِصحیح پر حمل واجب (ہے)۔( فتاوی رضویہ،۲۰ / ۲۷۸)
صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :بے شک مسلمان پر بد گمانی حرام ہے مگر جبکہ کسی قرینہ سے اس کا ایسا ہونا ثابت ہوتا ہو(جیسا اس کے بارے میں گمان کیا) تو اب حرام نہیں ،مثلاً کسی کو (شراب بنانے کی) بھٹی میں آتے جاتے دیکھ کر اسے شراب خور گمان کیا تواِس کا قصور نہیں (بلکہ بھٹی میں آنے جانے والے کا قصور ہے کیونکہ) اُس نے موضعِ تہمت (یعنی تہمت لگنے کی جگہ) سے کیوں اِجتناب نہ کیا۔( فتاوی امجدیہ، ۱ / ۱۲۳)
صدرُ الافاضل مفتی نعیم الدین مراد آبادی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :مومنِ صالح کے ساتھ برا گمان ممنوع ہے ، اسی طرح اس کا کوئی کلام سن کر فاسد معنی مراد لینا باوجود یکہ اس کے دوسرے صحیح معنی موجود ہوں اور مسلمان کا حال ان کے موافق ہو ، یہ بھی گمانِ بد میں داخل ہے ۔( خزائن العرفان، الحجرات، تحت الآیۃ: ۱۲، ص۹۵۰)
بد گمانی کی مذمت اور اچھا گمان رکھنے کی ترغیب
دین ِاسلا م وہ عظیم دین ہے جس میں انسانوں کے باہمی حقوق اور معاشرتی آداب کو خاص اہمیت دی گئی اور ان چیزوں کا خصوصی لحاظ رکھا گیاہے اسی لئے جو چیز انسانی حقوق کو ضائع کرنے کا سبب بنتی ہے اور جو چیز معاشرتی آداب کے بر خلاف ہے اس سے دینِ اسلام نے منع فرمایا اور اس سے بچنے کا تاکید کے ساتھ حکم دیاہے ،جیسے ان اَشیاء میں سے ایک چیز ’’بد گمانی‘‘ ہے جو کہ انسانی حقوق کی پامالی کا بہت بڑا سبب اور معاشرتی آداب کے انتہائی بر خلاف ہے، اس سے دین ِاسلام میں خاص طور پر منع کیا گیا ہے ،چنانچہ قرآنِ مجید میں ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’وَ لَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌؕ-اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰٓىٕكَ كَانَ عَنْهُ مَسْـٴُـوْلًا‘‘(بنی اسرائیل:۳۶)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اس بات کے پیچھے نہ پڑ جس کا تجھے علم نہیں بیشک کان اور آنکھ اور دل ان سب کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔
اور حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ اپنے آپ کو بدگمانی سے بچائو کہ بدگمانی بدترین جھوٹ ہے،ایک دوسرے کے ظاہری اور باطنی عیب مت تلاش کرو، حرص نہ کرو،حسد نہ کرو،بغض نہ کرو،ایک دوسرے سے رُوگَردانی نہ کرو اور اے اللہ کے بندو بھائی بھائی ہوجائو۔(مسلم، کتاب البرّ والصّلۃ والآداب، باب تحریم الظّنّ والتّجسّس... الخ، ص۱۳۸۶، الحدیث: ۲۸(۲۵۶۳))
اللہ تعالیٰ ہمیں ایک دوسرے کے بارے میں بد گمانی کرنے سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔
بد گمانی کے دینی اور دُنْیَوی نقصانات:
یہاں بدگمانی کے دینی اور دُنْیَوی نقصانات بھی ملاحظہ ہوں تاکہ بد گمانی سے بچنے کی ترغیب ملے،چنانچہ اس کے 4دینی نقصانات یہ ہیں
(1)…جس کے بارے میں بد گمانی کی ،اگر اُس کے سامنے اِس کا اظہار کر دیا تو اُس کی دل آزاری ہو سکتی ہے اور شرعی اجازت کے بغیر مسلمان کی دل آزاری حرام ہے ۔
(2)…اگر ا س کی غیر موجودگی میں دوسرے کے سامنے اپنے برے گمان کا اظہار کیاتو یہ غیبت ہو جائے گی اور مسلمان کی غیبت کرنا حرام ہے ۔
(3)…بد گمانی کرنے والا محض اپنے گمان پر صبر نہیں کرتا بلکہ وہ اس کے عیب تلاش کرنے میں لگ جاتا ہے اور کسی مسلمان کے عیبوں کوتلاش کرناناجائز و گناہ ہے ۔
(4)…بد گمانی کرنے سے بغض اور حسد جیسے خطرناک اَمراض پیدا ہوتے ہیں ۔
اور اس کے دو بڑے دُنْیَوی نقصانات یہ ہیں ،
(1)… بد گمانی کرنے سے دو بھائیوں میں دشمنی پیدا ہو جاتی ہے،ساس اور بہو ایک دوسرے کے خلاف ہو جاتے ہیں ، شوہر اور بیوی میں ایک دوسرے پر اعتماد ختم ہوجاتا اور بات بات پر آپس میں لڑائی رہنے لگتی ہے اور آخر کاران میں طلاق اور جدائی کی نوبت آجاتی ہے ،بھائی اور بہن کے درمیان تعلقات ٹوٹ جاتے ہیں اور یوں ایک ہنستا بستا گھر اجڑ کر رہ جاتا ہے۔
(2)… دوسروں کے لئے برے خیالات رکھنے والے افراد پر فالج اور دل کی بیماریوں کا خطرہ زیادہ ہو جاتا ہے جیسا کہ حال ہی میں امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن کی جانب سے جاری کردہ ایک تحقیقی رپوٹ میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ وہ افراد جو دوسروں کے لئے مخالفانہ سوچ رکھتے ہیں اور اس کی وجہ سے ذہنی دباؤ کا شکار اور غصے میں رہتے ہیں ان میں دل کی بیماریوں اور فالج کا خطرہ86%بڑھ جاتا ہے۔
بد گمانی کا علاج:
امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : شیطان آدمی کے دل میں بدگمانی ڈالتاہے تومسلمان کوچاہیے کہ وہ شیطان کی تصدیق نہ کرے اوراس کوخوش نہ کرے حتّٰی کہ اگرکسی کے منہ سے شراب کی بوآرہی ہوتوپھربھی اس پر حد لگانا جائز نہیں کیونکہ ہوسکتاہے اس نے شراب کاایک گھونٹ پی کرکلی کردی ہویاکسی نے اس کو جَبراً شراب پلادی ہو اوراس کااِحتمال ہے تووہ دل سے بدگمانی کی تصدیق کرکے شیطان کوخوش نہ کرے (اگرچہ مذکورہ صورت میں بدگمانی کا گناہ نہیں ہوگا لیکن بچنے میں پھر بھی بھلائی ہی ہے) (احیاء علوم الدین، کتاب آفات اللسان، بیان تحریم الغیبۃ بالقلب، ۳ / ۱۸۶ملخصاً)۔([1])
{وَ لَا تَجَسَّسُوْا: اورجستجونہ کرو۔} اس آیت میں دوسرا حکم یہ دیاگیا کہ مسلمانوں کی عیب جوئی نہ کرو اور ان کے پوشیدہ حال کی جستجو میں نہ رہوجسے اللہ تعالیٰ نے اپنی سَتّاری سے چھپایا ہے۔
مسلمانوں کے عیب تلاش کرنے کی ممانعت:
اس آیت سے معلوم ہو اکہ مسلمانوں کے پوشیدہ عیب تلاش کرنا اور انہیں بیان کرنا ممنوع ہے ،یہاں اسی سے متعلق ایک عبرت انگیز حدیث ِپاک ملاحظہ ہو،چنانچہ حضرت ابوبرزہ اسلمی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا ’’اے ان لوگوں کے گروہ، جو زبان سے ایمان لائے اور ایمان ان کے دلوں میں داخل نہیں ہوا، مسلمانوں کی غیبت نہ کرو اور ان کی چھپی ہوئی باتوں کی ٹٹول نہ کرو، اس لیے کہ جو شخص اپنے مسلمان بھائی کی چھپی ہوئی چیز کی ٹٹول کرے گا، اللہ تعالیٰ اس کی پوشیدہ چیز کی ٹٹول کرے (یعنی اسے ظاہر کر دے) گا اور جس کی اللہ (عَزَّوَجَلَّ) ٹٹول کرے گا (یعنی عیب ظاہر کرے گا) اس کو رسوا کردے گا، اگرچہ وہ اپنے مکان کے اندر ہو۔( ابو داؤد، کتاب الادب، باب فی الغیبۃ، ۴ / ۳۵۴، الحدیث: ۴۸۸۰)
اس سے معلوم ہو اکہ مسلمانوں کی غیبت کرنا اور ان کے عیب تلاش کرنا منافق کا شِعار ہے اور عیب تلاش کرنے کا انجام ذلت و رسوائی ہے کیونکہ جو شخص کسی دوسرے مسلمان کے عیب تلاش کر رہا ہے، یقینا اس میں بھی کوئی نہ کوئی عیب ضرور ہو گا اور ممکن ہے کہ وہ عیب ایسا ہو جس کے ظاہر ہونے سے وہ معاشرے میں ذلیل و خوار ہو جائے لہٰذا عیب تلاش کرنے والوں کو اس بات سے ڈرنا چاہئے کہ ان کی اس حرکت کی بنا پر کہیں اللہ تعالیٰ ان کے وہ پوشیدہ عیوب ظاہر نہ فرما دے جس سے وہ ذلت و رسوائی سے دوچارہو جائیں۔
عیب چھپانے کے دو فضائل:
یہاں موضوع کی مناسبت سے مسلمانوں کے عیب چھپانے کے دو فضائل ملاحظہ ہو ں ،
(1)…حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے کسی مسلمان کے عیب پرپردہ رکھااللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے عیوب پرپردہ رکھے گا۔( بخاری، کتاب المظالم والغصب، باب لا یظلم المسلم... الخ، ۲ / ۱۲۶، الحدیث: ۲۴۴۲)
(2)…حضرت عقبہ بن عامر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص ایسی چیز دیکھے جس کو چھپانا چاہیے اور اس نے پردہ ڈال دیا (یعنی چھپادی) تو ایسا ہے جیسے مَوْء ُوْدَہ (یعنی زندہ زمین میں دبا دی جانے والی بچی) کو زندہ کیا۔( ابو داؤد، کتاب الادب، باب فی الستر علی المسلم، ۴ / ۳۵۷، الحدیث: ۴۸۱۹)
اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اپنے مسلمان بھائیوں کے عیب چھپانے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
لوگوں کے عیب تلاش کرنے کی بجائے اپنے عیبوں کی اصلاح کی جائے:
جو شخص لوگوں کے عیب تلاش کرنے میں رہتا ہے اسے خاص طور پر اور تمام لوگوں کو عمومی طور پر چاہئے کہ کسی کے عیب تلاش کرنے کی بجائے اپنے اندر موجود عیبوں کو تلاش کرنے اور ان کی اصلاح کرنے کی کوشش کریں کہ اسی میں ان کی اور دوسروں کی دنیا و آخرت کابھلا ہے ۔
حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی کی آنکھ میں تنکادیکھتاہے اوراپنی آنکھ کوبھول جاتاہے۔( شعب الایمان، الرابع والاربعون من شعب الایمان... الخ، فصل فیما ورد... الخ، ۵ / ۳۱۱، الحدیث: ۶۷۶۱)
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں :جب تم اپنے ساتھی کے عیب ذکر کرنے کا ارادہ کرو تو (اس وقت) اپنے عیبوں کو یاد کرو۔( شعب الایمان، الرابع والاربعون من شعب الایمان... الخ، فصل فیما ورد... الخ، ۵ / ۳۱۱، الحدیث: ۶۷۵۸)
اللہ تعالیٰ ہمیں دوسروں کے عیب تلاش کرنے سے بچنے،اپنے عیبوں کو تلاش کرنے اور ان کی اصلاح کرنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
انسان کی عزت و حرمت کی حفاظت میں اسلام کا کردار
دین ِاسلام کی نظر میں ایک انسا ن کی عزت و حرمت کی قدر بہت زیادہ ہے اور اگر وہ انسان مسلمان بھی ہو تو اس کی عزت و حرمت کی قدر اسلام کی نظر میں مزید بڑھ جاتی ہے، اسی لئے دین ِاسلام نے ان تما م اَفعال سے بچنے کا حکم دیا ہے جن سے کسی انسان کی عزت و حرمت پامال ہوتی ہو،ان افعال میں سے ایک فعل کسی کے عیب تلاش کرنا اور اسے دوسروں کے سامنے بیان کر دینا ہے جس کا انسانوں کی عزت و حرمت ختم کرنے میں بہت بڑ اکردار ہے ،اس وجہ سے جہاں اس شخص کو ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کا عیب لوگوں کے سامنے ظاہر ہو جائے وہیں وہ شخص بھی لوگوں کی نفرت اور ملامت کا سامنا کرتا ہے جو عیب تلاش کرنے اور انہیں ظاہر کرنے میں لگا رہتا ہے ،یوں عیب تلاش کرنے والے اور جس کا عیب بیان کیا جائے ، دونو ں کی عزت و حرمت چلی جاتی ہے ،اس لئے دین ِاسلام نے عیبوں کی تلاش میں رہنے اور انہیں لوگوں کے سامنے شرعی اجازت کے بغیر بیان کرنے سے منع کیا اور اس سے باز نہ آنے والوں کو سخت وعیدیں سنائیں تاکہ ان وعیدوں سے ڈر کر لوگ اس بُرے فعل سے با ز آ جائیں اور سب کی عزت و حرمت کی حفاظت ہو۔
{وَ لَا یَغْتَبْ بَّعْضُكُمْ بَعْضًا: اور ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو۔} اس آیت میں تیسرا حکم یہ دیا گیا کہ ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو، کیا تم میں کوئی یہ پسند کرے گا کہ اپنے مَرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے، یقینا یہ تمہیں ناپسند ہوگا ،تو پھر مسلمان بھائی کی غیبت بھی تمہیں گوارا نہ ہونی چاہئے کیونکہ اس کو پیٹھ پیچھے برا کہنا اس کے مرنے کے بعد اس کا گوشت کھانے کی مثل ہے کیونکہ جس طرح کسی کا گوشت کاٹنے سے اس کو ایذا ہوتی ہے اسی طرح اس کی بدگوئی کرنے سے اسے قلبی تکلیف ہوتی ہے اور درحقیقت عزت وآبرُو گوشت سے زیادہ پیاری ہے۔شانِ نزول: جب سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جہاد کے لئے روانہ ہوتے اور سفر فرماتے تو ہر دو مال داروں کے ساتھ ایک غریب مسلمان کو کردیتے کہ وہ غریب اُن کی خدمت کرے اور وہ اسے کھلائیں پلائیں ،یوں ہر ایک کاکا م چلے،چنانچہ اسی دستور کے مطابق حضرت سلمان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ دو آدمیوں کے ساتھ کئے گئے تھے، ایک روز وہ سوگئے اور کھانا تیار نہ کرسکے تو اُن دونوں نے انہیں کھانا طلب کرنے کے لئے رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں بھیجا، حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے کچن کے خادم حضرتِ اُسامہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ تھے، اُن کے پاس کھانے میں سے کچھ باقی رہا نہ تھا،اس لئے انہوں نے فرمایا کہ میرے پاس کچھ نہیں ہے۔ حضرت سلمان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے یہی آکر کہہ دیا تو اُن دونوں رفیقوں نے کہا : اُسامہ (رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ) نے بخل کیا ۔جب وہ حضورِانور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے ارشاد فرمایا’’ میں تمہارے منہ میں گوشت کی رنگت دیکھتا ہوں ۔ اُنہوں نے عرض کی:ہم نے گوشت کھایا ہی نہیں ۔ ارشادفرمایا’’ تم نے غیبت کی اور جو مسلمان کی غیبت کرے اُس نے مسلمان کا گوشت کھایا۔( خازن، الحجرات، تحت الآیۃ: ۱۲، ۴ / ۱۷۰-۱۷۱ملخصاً)
غیبت اور ا س کی مذمت سے متعلق4اَحادیث:
اس آیت میں غیبت کرنے سے منع کیا گیا اور ایک مثال کے ذریعے اس کی شَناعَت اور برائی کو بیان فرمایاگیا ہے ، کثیر اَحادیث میں بھی اس کی شدید مذمت بیان کی گئی ہے ،یہاں ان میں سے 4اَحادیث ملاحظہ ہوں
(1)… حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’کیاتم جانتے ہوکہ غیبت کیاچیزہے ؟ صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے عرض کی :اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہی زیادہ جانتے ہیں ۔ارشادفرمایا’’تم اپنے بھائی کاوہ عیب بیان کروجس کے ذکرکووہ ناپسند کرتا ہے۔ عرض کی گئی :اس کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے کہ اگرمیرے بھائی میں وہ عیب موجود ہوجسے میں بیان کرتا ہوں ۔ ارشاد فرمایا:تم جوعیب بیان کررہے ہو اگروہ اس میں موجود ہوجب ہی تووہ غیبت ہے اوراگراس میں وہ عیب نہیں ہے توپھروہ بہتان ہے۔( مسلم، کتاب البرّ والصّلۃ والآداب، باب تحریم الغیبۃ، ص۱۳۹۷، الحدیث: ۷۰(۲۵۸۹))
(2)… حضرت ابوسعید اور حضرت جابر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’ غیبت زِنا سے بھی زیادہ سخت چیز ہے۔ لوگوں نے عرض کی، یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، غیبت زنا سے زیادہ سخت کیسے ہے؟ارشاد فرمایا ’’مرد زِنا کرتا ہے پھر توبہ کرتا ہے تواللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبو ل فرماتا ہے اور غیبت کرنے والے کی تب تک مغفرت نہ ہوگی جب تک وہ معاف نہ کردے جس کی غیبت کی ہے۔( شعب الایمان، الرابع والاربعون من شعب الایمان... الخ، فصل فیما ورد... الخ، ۵ / ۳۰۶، الحدیث: ۶۷۴۱)
(3)… حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، سرکارِدو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ جب مجھے معراج کرائی گئی تومیں ایسے لوگوں کے پاس سے گزراجن کے ناخن پیتل کے تھے اوروہ ان ناخنوں سے اپنے چہروں اورسینوں کونوچ رہے تھے ،میں نے پوچھا:اے جبریل! عَلَیْہِ السَّلَام، یہ کون لوگ ہیں ؟انہوں نے کہا: یہ وہ افراد ہیں جولوگوں کاگوشت کھاتے اوران کی عزتوں کوپامال کرتے تھے ۔ (ابوداؤد، کتاب الادب، باب فی الغیبۃ، ۴ / ۳۵۳، الحدیث: ۴۸۷۸)
(4)…حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جس نے دنیامیں اپنے بھائی کاگوشت کھایاا س کے پاس قیامت کے دن ا س کے بھائی کاگوشت لایاجائے گااوراس سے کہا جائے گاتم جس طرح دنیامیں اپنے مردہ بھائی کاگوشت کھاتے تھے اب زندہ کاگوشت کھائووہ چیخ مارتاہوااورمنہ بگاڑتا ہوا کھائے گا۔(معجم الاوسط، باب الالف، من اسمہ: احمد، ۱ / ۴۵۰، الحدیث: ۱۶۵۶)
سرِ دست یہ4اَحادیث ذکر کی ہیں ،ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ انہیں غور سے پڑھے اور غیبت سے بچنے کی بھرپور کوشش کرے، فی زمانہ اس حرام سے بچنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے کیونکہ آج کل مسلمانوں میں یہ بلا بہت پھیلی ہوئی ہے اور وہ اس سے بچنے کی طرف بالکل توجہ نہیں کرتے اور ان کی بہت کم مجلسیں ایسی ہوتی ہیں جو چغلی اور غیبت سے محفوظ ہوں ۔اللہ تعالیٰ ہمیں غیبت جیسی خطرناک باطنی بیماری سے محفوظ فرمائے ،اٰمین۔
غیبت کی تعریف اور اس سے متعلق 5شرعی مسائل:
صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :غیبت کے یہ معنی ہیں کہ کسی شخص کے پوشیدہ عیب کو (جس کو وہ دوسروں کے سامنے ظاہر ہونا پسند نہ کرتا ہو) اس کی برائی کرنے کے طور پر ذکر کرنا اور اگر اس میں وہ بات ہی نہ ہو تو یہ غیبت نہیں بلکہ بہتان ہے۔( بہار شریعت، حصہ شانزدہم، ۳ / ۵۳۲)
غیبت سے متعلق 5شرعی مسائل درج ذیل ہیں :
(1)…غیبت جس طرح زبان سے ہوتی ہے (اسی طرح) فعل سے بھی ہوتی ہے، صراحت کے ساتھ برائی کی جائے یا تعریض و کنایہ کے ساتھ ہو سب صورتیں حرام ہیں ، برائی کو جس نَوعِیَّت سے سمجھا ئے گا سب غیبت میں داخل ہے۔ تعریض کی یہ صورت ہے کہ کسی کے ذکر کرتے وقت یہ کہا کہ ’’اَلْحَمْدُ لِلّٰہ میں ایسا نہیں ‘‘ جس کا یہ مطلب ہوا کہ وہ ایسا ہے۔ کسی کی برائی لکھ دی یہ بھی غیبت ہے ،سر وغیرہ کی حرکت بھی غیبت ہوسکتی ہے، مثلاً کسی کی خوبیوں کا تذکرہ تھا اس نے سر کے اشارہ سے یہ بتانا چاہا کہ اس میں جو کچھ برائیاں ہیں ان سے تم واقف نہیں ، ہونٹوں اور آنکھوں اور بھوؤں اور زبان یا ہاتھ کے اشارہ سے بھی غیبت ہوسکتی ہے۔
(2)…ایک صورت غیبت کی نقل ہے مثلاً کسی لنگڑے کی نقل کرے اور لنگڑا کر چلے، یا جس چال سے کوئی چلتا ہے اس کی نقل اتاری جائے یہ بھی غیبت ہے، بلکہ زبان سے کہہ دینے سے یہ زیادہ برا ہے کیونکہ نقل کرنے میں پوری تصویر کشی اور بات کو سمجھانا پایا جاتا ہے (جب) کہ کہنے میں وہ بات نہیں ہوتی۔( بہار شریعت، حصہ شانزدہم، ۳ / ۵۳۶)
(3)…جس طرح زندہ آدمی کی غیبت ہوسکتی ہے مرے ہوئے مسلمان کو برائی کے ساتھ یاد کرنا بھی غیبت ہے، جبکہ وہ صورتیں نہ ہوں جن میں عیوب کا بیان کرنا غیبت میں داخل نہیں ۔ مسلم کی غیبت جس طرح حرام ہے کافر ذمی کی بھی ناجائز ہے کہ ان کے حقوق بھی مسلم کی طرح ہیں (جبکہ) کافر حربی کی برائی کرنا غیبت نہیں ۔
(4)…کسی کی برائی اس کے سامنے کرنا اگر غیبت میں داخل نہ بھی ہو جبکہ غیبت میں پیٹھ پیچھے برائی کرنا معتبر ہو مگر یہ اس سے بڑھ کر حرام ہے کیونکہ غیبت میں جو وجہ ہے وہ یہ ہے کہ ایذاء ِمسلم ہے وہ یہاں بدرجہ اَولی پائی جاتی ہے غیبت میں تو یہ اِحتمال ہے کہ اسے اطلاع ملے یا نہ ملے اگر اسے اطلاع نہ ہوئی تو ایذا بھی نہ ہوئی، مگر احتمالِ ایذا کو یہاں ایذا قرار دے کر شرعِ مُطَہَّر نے حرام کیا اور مونھ پر اس کی مذمت کرنا تو حقیقۃً ایذا ہے پھر یہ کیوں حرام نہ ہو۔
صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :بعض لوگوں سے جب کہا جاتا ہے کہ تم فلاں کی غیبت کیوں کرتے ہو، وہ نہایت دلیری کے ساتھ یہ کہتے ہیں مجھے اس کا ڈر اپڑا ہے چلو میں اس کے مونھ پر یہ باتیں کہہ دوں گا، ان کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ پیٹھ پیچھے اس کی برائی کرنا غیبت و حرام ہے اور مونھ پر کہو گے تو یہ دوسرا حرام ہوگا، اگر تم اس کے سامنے کہنے کی جرأت رکھتے ہو تو اس کی وجہ سے غیبت حلال نہیں ہوگی۔
(5)…جس کے سامنے کسی کی غیبت کی جائے اسے لازم ہے کہ زبان سے انکار کردے مثلاً کہدے کہ میرے سامنے اس کی برائی نہ کرو۔ اگر زبان سے انکار کرنے میں اس کو خوف و اندیشہ ہے تو دل سے اسے برا جانے اور اگر ممکن ہو تو یہ شخص جس کے سامنے برائی کی جارہی ہے وہاں سے اٹھ جائے یا اس بات کو کاٹ کر کوئی دوسری بات شروع کردے ایسا نہ کرنے میں سننے والا بھی گناہ گار ہوگا، غیبت کا سننے والا بھی غیبت کرنے والے کے حکم میں ہے۔( بہار شریعت، حصہ شانزدہم، ۳ / ۵۳۷-۵۳۸)
غیبت سے توبہ اورمعافی سے متعلق5شرعی مسائل:
یہاں غیبت سے توبہ اور معافی سے متعلق 5شرعی مسائل بھی ملاحظہ ہوں
(1)…جس کی غیبت کی اگر اس کو اس کی خبر ہوگئی تو اس سے معافی مانگنی ضروری ہے اور یہ بھی ضروری ہے کہ اس کے سامنے یہ کہے کہ میں نے تمھاری اس اس طرح غیبت یا برائی کی تم معاف کردو، اس سے معاف کرائے اور توبہ کرے تب اس سے بریٔ الذمہ ہوگا اور اگر اس کو خبر نہ ہوئی ہو تو توبہ اور ندامت کافی ہے۔
(2)…جس کی غیبت کی ہے اسے خبر نہ ہوئی اور اس نے توبہ کرلی اس کے بعد اسے خبر ملی کہ فلاں نے میری غیبت کی ہے آیا اس کی توبہ صحیح ہے یا نہیں ؟ اس میں علما کے دوقول ہیں ایک قول یہ ہے کہ وہ توبہ صحیح ہے اللہ تعالیٰ دونوں کی مغفرت فرمادے گا، جس نے غیبت کی اس کی مغفرت توبہ سے ہوئی اور جس کی غیبت کی گئی اس کو جو تکلیف پہنچی اور اس نے درگزر کیا، اس وجہ سے اس کی مغفرت ہوجائے گی۔
اور بعض علما یہ فرماتے ہیں کہ اس کی توبہ مُعَلَّق رہے گی اگر وہ شخص جس کی غیبت ہوئی خبر پہنچنے سے پہلے ہی مرگیا تو توبہ صحیح ہے اور توبہ کے بعد اسے خبر پہنچ گئی تو صحیح نہیں ، جب تک اس سے معاف نہ کرائے۔ بہتان کی صورت میں توبہ کرنا اور معافی مانگنا ضروری ہے بلکہ جن کے سامنے بہتان باندھا ہے ان کے پاس جا کر یہ کہنا ضرور ہے کہ میں نے جھوٹ کہا تھا جو فلاں پر میں نے بہتان باندھا تھا۔
(3)…معافی مانگنے میں یہ ضرور ہے کہ غیبت کے مقابل میں اس کی ثناءِ حسن (اچھی تعریف) کرے اور اس کے ساتھ اظہارِ محبت کرے کہ اس کے دل سے یہ بات جاتی رہے اور فرض کرو اس نے زبان سے معاف کردیا مگر اس کا دل اس سے خوش نہ ہوا تو اس کا معافی مانگنا اور اظہارِ محبت کرنا غیبت کی برائی کے مقابل ہوجائے گا اور آخرت میں مُؤاخَذہ نہ ہوگا۔
(4)…اس نے معافی مانگی اور اس نے معاف کردیا مگر اس نے سچائی اور خلوصِ دل سے معافی نہیں مانگی تھی محض ظاہری اور نمائشی یہ معافی تھی، تو ہوسکتا ہے کہ آخرت میں مُؤاخذہ ہو، کیونکہ اس نے یہ سمجھ کر معاف کیا تھا کہ یہ خلوص کے ساتھ معافی مانگ رہا ہے۔
(5)…امام غزالی عَلَیْہِ الرَّحْمَہ یہ فرماتے ہیں ، کہ جس کی غیبت کی وہ مرگیا یا کہیں غائب ہوگیا اس سے کیونکر معافی مانگے یہ معاملہ بہت دشوار ہوگیا، اس کو چاہیے کہ نیک کام کی کثرت کرے تاکہ اگر اس کی نیکیاں غیبت کے بدلے میں اسے دے دی جائیں ، جب بھی اس کے پاس نیکیاں باقی رہ جائیں ۔( بہار شریعت، حصہ شانزدہم، ۳ / ۵۳۸-۵۳۹)
نوٹ:غیبت سے متعلق مزید شرعی مسائل جاننے کیلئے،بہار شریعت جلد3ص532تا539کا مطالعہ فرمائیں ۔([2])