Home ≫ ur ≫ Surah Al Hujurat ≫ ayat 11 ≫ Translation ≫ Tafsir
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا یَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰۤى اَنْ یَّكُوْنُوْا خَیْرًا مِّنْهُمْ وَ لَا نِسَآءٌ مِّنْ نِّسَآءٍ عَسٰۤى اَنْ یَّكُنَّ خَیْرًا مِّنْهُنَّۚ-وَ لَا تَلْمِزُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ لَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِؕ-بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْاِیْمَانِۚ-وَ مَنْ لَّمْ یَتُبْ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ(11)
تفسیر: صراط الجنان
{یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا یَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ: اے ایمان والو !مرد دوسرے مَردوں پر نہ ہنسیں ۔} شانِ نزول: اس آیت ِمبارکہ کے مختلف حصوں کا نزول مختلف واقعات میں ہوا ہے اورآیت کے زیرِ تفسیر حصے کے نزول سے متعلق دو واقعات درج ذیل ہیں :
(1)…حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں : حضرت ثابت بن قیس بن شماس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ اونچا سنتے تھے ، جب وہ سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مجلس شریف میں حاضر ہوتے تو صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ انہیں آگے بٹھاتے اور اُن کے لئے جگہ خالی کردیتے تاکہ وہ حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے قریب حاضر رہ کر کلام مبارک سن سکیں ۔ایک روز انہیں حاضری میں دیر ہوگئی اور جب مجلس شریف خوب بھر گئی اس وقت آپ تشریف لائے اور قاعدہ یہ تھا کہ جو شخص ایسے وقت آتا اور مجلس میں جگہ نہ پاتا تو جہاں ہوتا وہیں کھڑا رہتا۔لیکن حضرت ثابت رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ آئے تو وہ رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے قریب بیٹھنے کے لئے لوگوں کو ہٹاتے ہوئے یہ کہتے چلے کہ’’ جگہ دو جگہ‘‘ یہاں تک کہ حضورِ اَنور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اتنے قریب پہنچ گئے کہ اُن کے اور حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے درمیان میں صرف ایک شخص رہ گیا، انہوں نے اس سے بھی کہا کہ جگہ دو، اس نے کہا :تمہیں جگہ مل گئی ہے ا س لئے بیٹھ جائو ۔حضرت ثابت رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ غصّہ میں آکر اس کے پیچھے بیٹھ گئے ۔ جب دن خوب روشن ہوا توحضرت ثابت رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے اس کا جسم دبا کر کہا: کون؟ اس نے کہا: میں فلاں شخص ہوں ۔ حضرت ثابت رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے اس کی ماں کا نام لے کر کہا: فلانی کا لڑکا۔ اس پر اس شخص نے شرم سے سرجھکالیا کیونکہ اس زمانے میں ایسا کلمہ عار دلانے کے لئے کہا جاتا تھا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔
(2)… حضر ت ضحاک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : یہ آیت بنی تمیم کے ان افراد کے بارے میں نازل ہوئی جو حضرت عمار،حضرت خباب ،حضرت بلا ل ،حضرت صہیب،حضرت سلمان اور حضرت سالم وغیرہ غریب صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کی غُربَت دیکھ کر ان کا مذاق اُڑایاکرتے تھے ۔ ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی اور فرمایا گیا کہ مرد مَردوں سے نہ ہنسیں ،یعنی مال دار غریبوں کا ، بلند نسب والے دوسرے نسب والوں کا،تندرست اپاہج کا اور آنکھ والے اس کا مذاق نہ اُڑائیں جس کی آنکھ میں عیب ہو،ہوسکتا ہے کہ وہ ان ہنسنے والوں سے صدق اور اخلاص میں بہتر ہوں ۔( خازن، الحجرات، تحت الآیۃ: ۱۱، ۴ / ۱۶۹)
کسی شخص میں فقر کے آثار دیکھ کر اس کا مذاق نہ اُڑایا جائے :
آیت کے دوسرے شانِ نزول سے معلوم ہو اکہ اگر کسی شخص میں فقر، محتاجی اور غریبی کے آثار نظر آئیں تو ان کی بنا پرا س کا مذاق نہ اڑایا جائے ،ہو سکتا ہے کہ جس کا مذاق اڑایا جا رہا ہے وہ مذاق اڑانے والے کے مقابلے میں دینداری کے لحاظ سے کہیں بہتر ہو۔
حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جن کے بال بکھرے ہوئے اور غبار آلود ہوتے ہیں ،ان کے پاس دو پُرانی چادریں ہوتی ہیں اور انہیں کوئی پناہ نہیں دیتا (لیکن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ان کا رتبہ ومقام یہ ہوتا ہے کہ) اگروہ اللہ تعالیٰ پر قسم کھالیں (کہ اللہ تعالیٰ فلاں کام کرے گا) تو اللہ تعالیٰ (وہ کام کر کے) ان کی قسم کو سچا کر دیتا ہے۔( ترمذی، کتاب المناقب، باب مناقب البراء بن مالک رضی اللّٰہ عنہ، ۵ / ۴۵۹، الحدیث: ۳۸۸۰)
حضر ت حارث بن وہب خزاعی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’کیا میں تمہیں جنتی لوگوں کے بارے میں نہ بتاؤں ؟یہ ہر وہ شخص ہے جو کمزور اور (لوگوں کی نگاہوں میں ) گرا ہو اہے ،اگر وہ اللہ تعالیٰ پر قسم کھا لے تو اللہ تعالیٰ ضرور اس کی قسم سچی کر دے گا۔( ترمذی، کتاب صفۃ جہنّم، ۱۳-باب، ۴ / ۲۷۲، الحدیث: ۲۶۱۴)
{وَ لَا نِسَآءٌ مِّنْ نِّسَآءٍ عَسٰۤى اَنْ یَّكُنَّ خَیْرًا مِّنْهُنَّ: اور نہ عورتیں دوسری عورتوں پر ہنسیں ، ہوسکتا ہے کہ وہ ان ہنسنے والیوں سے بہتر ہوں ۔} شانِ نزول: آیت ِمبارکہ کے اس حصے کے نزول سے متعلق دو رِوایات درج ذیل ہیں ،
(1)…حضر ت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :یہ آیت رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اَزواجِ مُطَہَّرات رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُنَّ کے متعلق نازل ہوئی ہے،انہوں نے حضرت ِاُمِّ سلمہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا کوچھوٹے قد کی وجہ سے شرمندہ کیا تھا۔
(2)… حضرت عبداللہ بن عبا س رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں : آیت کا یہ حصہ اُمُّ المومنین حضرت صفیہ بنت حُیَی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا کے حق میں اس وقت نازل ہوا جب انہیں حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ایک زوجۂ مُطَہَّرہ نے یہودی کی بیٹی کہا۔( خازن، الحجرات، تحت الآیۃ: ۱۱، ۴ / ۱۶۹)
اس واقعے کی تفصیل بیان کرتے ہوئے حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : اُمُّ المومنین حضرت صفیہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا کو معلوم ہوا کہ حضرت حفصہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا نے انہیں یہودی کی لڑکی کہا ہے،(اس پر انہیں رنج ہوا اور)آپ ر ونے لگیں ، جب سرکارِ دوعالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ان کے پاس تشریف لائے اور انہیں روتا ہوا پایا تو ارشاد فرمایا’’تم کیوں رو رہی ہو؟عرض کی:حضرت حفصہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا نے مجھے یہودی کی لڑکی کہا ہے۔ حضورِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا ’’ تم نبی زادی ہو،تیرے چچا نبی ہیں اور نبی کی بیوی ہو ،توتم پر وہ کیا فخر کرتی ہیں اور حضرت حفصہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا سے فرمایا’’ اے حفصہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا اللہ تعالیٰ سے ڈرو۔( ترمذی، کتاب المناقب، باب فضل ازواج النّبی، ۵ / ۴۷۴، الحدیث: ۳۹۲۰)
نوٹ: آیت ِمبارکہ میں عورتوں کا جداگانہ ذکر اس لئے کیا گیا کہ عورتوں میں ایک دوسرے کامذاق اُڑانے اوراپنے آپ کوبڑاجاننے کی عادت بہت زیادہ ہوتی ہے ،نیز آیت ِمبارکہ کا یہ مطلب نہیں ہے کہ عورتیں کسی صورت آپس میں ہنسی مذاق نہیں کر سکتیں بلکہ چند شرائط کے ساتھ ان کا آپس میں ہنسی مذاق کرنا جائز ہے ،جیسا کہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : (عورتوں کی ایک دوسرے سے) جائز ہنسی جس میں نہ فحش ہو نہ ایذائے مُسلم،نہ بڑوں کی بے ادبی،نہ چھوٹوں سے بد لحاظی،نہ وقت و محل کے نظر سے بے موقع،نہ اس کی کثرت اپنی ہمسر عورتوں سے جائز ہے۔( فتاوی رضویہ، ۲۳ / ۱۹۴)
مذاق اُڑانے کا شرعی حکم اور اس فعل کی مذمت:
مذاق اُڑانے کا شرعی حکم بیان کرتے ہوئے حضرت علامہ عبد المصطفٰی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : اہانت اور تحقیر کیلئے زبان یا اشارات، یا کسی اور طریقے سے مسلمان کا مذاق اڑانا حرام و گناہ ہے کیونکہ اس سے ایک مسلمان کی تحقیر اور اس کی ایذاء رسانی ہوتی ہے اور کسی مسلمان کی تحقیر کرنا اوردکھ دینا سخت حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔( جہنم کے خطرات،ص۱۷۳)
کثیر اَحادیث میں اس فعل سے ممانعت اور اس کی شدید مذمت اور شناعت بیان کی گئی ہے ،جیسا کہ حضرت عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اپنے بھائی سے نہ جھگڑا کرو، نہ اس کا مذاق اڑائو، نہ اس سے کوئی ایسا وعدہ کرو جس کی خلاف ورزی کرو۔( ترمذی، کتاب البرّ والصّلۃ، باب ما جاء فی المرائ، ۳ / ۴۰۰، الحدیث: ۲۰۰۲)
اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا’’ میں کسی کی نقل اتارنا پسند نہیں کرتا اگرچہ اس کے بدلے میں مجھے بہت مال ملے۔( ابو داؤد، کتاب الادب، باب فی الغیبۃ، ۴ / ۳۵۳، الحدیث: ۴۸۷۵)
حضرت حسن رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ قیامت کے دن لوگوں کا مذاق اڑانے والے کے سامنے جنت کا ایک دروازہ کھولا جائے گا اور کہا جائے گا کہ آؤ آؤ، تو وہ بہت ہی بے چینی اور غم میں ڈوبا ہوا اس دروازے کے سامنے آئے گا مگر جیسے ہی وہ دروازے کے پاس پہنچے گا وہ دروازہ بند ہو جائے گا ،پھر ایک دوسرا جنت کا دروازہ کھلے گا اور اس کو پکارا جائے گا: آؤ یہاں آؤ، چنانچہ یہ بے چینی اور رنج وغم میں ڈوبا ہوا اس دروازے کے پاس جائے گا تو وہ دروازہ بند ہو جائے گا،اسی طرح اس کے ساتھ معاملہ ہو تا رہے گا یہاں تک کہ دروازہ کھلے گا اور پکارپڑے گی تو وہ ناامیدی کی وجہ سے نہیں جائے گا۔ (اس طرح وہ جنت میں داخل ہو نے سے محروم رہے گا)(موسوعۃ ابن ابی دنیا، الصّمت وآداب اللّسان، باب ما نہی عنہ العباد ان یسخر... الخ، ۷ / ۱۸۳، الحدیث: ۲۸۷)
حضرت علامہ عبد المصطفٰی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :کسی کو ذلیل کرنے کے لیے اور اس کی تحقیر کرنے کے لیے اس کی خامیوں کو ظاہر کرنا ،اس کا مذاق اڑانا،اس کی نقل اتارنایا اس کو طعنہ مارنا یا عار دلانا یا اس پر ہنسنا یا اس کو بُرے بُرے اَلقاب سے یاد کرنا اور اس کی ہنسی اُڑانا مثلاً آج کل کے بَزَعمِ خود اپنے آپ کو عُرفی شُرفاء کہلانے والے کچھ قوموں کو حقیر و ذلیل سمجھتے ہیں اور محض قومِیَّت کی بنا پر ان کا تَمَسْخُر اور اِستہزاء کرتے اور مذاق اڑاتے رہتے ہیں اور قِسم قسم کے دل آزار اَلقاب سے یاد کرتے رہتے ہیں ،کبھی طعنہ زنی کرتے ہیں ، کبھی عار دلاتے ہیں ، یہ سب حرکتیں حرام و گناہ اور جہنم میں لے جانے والے کام ہیں ۔لہٰذا ان حرکتوں سے توبہ لازم ہے، ورنہ یہ لوگ فاسق ٹھہریں گے۔ اسی طرح سیٹھوں اور مالداروں کی عادت ہے کہ وہ غریبوں کے ساتھ تَمَسْخُر اور اہانت آمیز القاب سے ان کو عار دلاتے اور طعنہ زنی کرتے رہتے ہیں اور طرح طرح سے ان کا مذاق اڑایا کرتے ہیں جس سے غریبوں کی دل آزاری ہوتی رہتی ہے، مگر وہ اپنی غُربَت اور مُفلسی کی وجہ سے مالداروں کے سامنے دَم نہیں مار سکتے۔ ان مالدارو ں کو ہوش میں آ جانا چاہیے کہ اگر وہ اپنے ان کَرتُوتوں سے توبہ کرکے باز نہ آئے تو یقینا وہ قہرِ قَہّار و غضبِ جَبّار میں گرفتار ہو کر جہنم کے سزاوار بنیں گے اور دنیا میں ان غریبوں کے آنسو قہرِ خداوندی کا سیلاب بن کر ان مالداروں کے محلات کو خَس و خاشاک کی طرح بہا لے جائیں گے۔(جہنم کے خطرات،ص۱۷۵-۱۷۶)
خوش طبعی کرنے کا حکم:
یاد رہے کہ کسی شخص سے ایسا مذاق کرنا حرام ہے جس سے اسے اَذِیَّت پہنچے البتہ ایسا مذاق جوا سے خوش کر دے، جسے خوش طبعی اور خوش مزاجی کہتے ہیں ،جائز ہے، بلکہ کبھی کبھی خوش طبعی کرنا سنت بھی ہے جیسا کہ مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں’’حضور پُرنور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سے کبھی کبھی خوش طبعی کرنا ثابت ہے ، اسی لیے علماءِ کرام فرماتے ہیں کہ کبھی کبھی خوش طبعی کرنا سنتِ مُسْتحبہ ہے۔( مراٰۃ المناجیح، ۶ / ۴۹۳-۴۹۴)
امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :اگر تم اس بات پر قادر ہو کہ جس پر نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ قادر تھے کہ مزاح (یعنی خوش طبعی) کرتے وقت صرف حق بات کہو،کسی کے دل کو اَذِیَّت نہ پہنچاؤ،حد سے نہ بڑھو اور کبھی کبھی مزاح کرو تو تمہارے لئے بھی کوئی حرج نہیں لیکن مزاح کو پیشہ بنا لینا بہت بڑی غلطی ہے۔( احیاء علوم الدین، کتاب آفات اللّسان، الآفۃ العاشرۃ المزاح، ۳ / ۱۵۹)
مزید فرماتے ہیں :وہ مزاح ممنوع ہے جو حد سے زیادہ کیا جائے اور ہمیشہ اسی میں مصروف رہا جائے اور جہاں تک ہمیشہ مزاح کرنے کا تعلق ہے تو اس میں خرابی یہ ہے کہ یہ کھیل کود اور غیر سنجیدگی ہے ،کھیل اگرچہ (بعض صورتوں میں ) جائز ہے لیکن ہمیشہ اسی کام میں لگ جانا مذموم ہے اور حد سے زیادہ مزاح کرنے میں خرابی یہ ہے کہ اس کی وجہ سے زیادہ ہنسی پیدا ہوتی ہے اور زیادہ ہنسنے سے دل مر دہ ہوجاتا ہے ، بعض اوقات دل میں بغض پیدا ہو جاتا ہے اور ہَیبَت و وقار ختم ہو جاتا ہے، لہٰذا جو مزاح ان اُمور سے خالی ہو وہ قابلِ مذمت نہیں ، جیسا کہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’بے شک میں بھی مزاح کرتا ہوں اور میں(خوش طبعی میں ) سچی بات ہی کہتا ہوں ۔( معجم الاوسط، باب الالف، من اسمہ: احمد، ۱ / ۲۸۳، الحدیث: ۹۹۵)
لیکن یہ بات تو آپ کے ساتھ خاص تھی کہ مزاح بھی فرماتے اور جھوٹ بھی نہ ہوتا لیکن جہاں تک دوسرے لوگوں کا تعلق ہے تو وہ مزاح اسی لئے کرتے ہیں کہ لوگوں کو ہنسائیں خواہ جس طرح بھی ہو، اور (اس کی وعید بیان کرتے ہوئے) نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ایک شخص کوئی بات کہتا ہے جس کے ذریعے وہ اپنے ہم مجلس لوگوں کوہنساتا ہے ،اس کی وجہ سے ثُرَیّا ستارے سے بھی زیادہ دور تک جہنم میں گرتا ہے۔( مسند امام احمد ، مسند ابی ہریرۃ رضی اللّٰہ عنہ ، ۳ / ۳۶۶ ، الحدیث: ۹۲۳۱، احیاء علوم الدین، کتاب آفات اللسان، الآفۃ العاشرۃ المزاح، ۳ / ۱۵۸)
اللہ تعالیٰ ہمیں جائز خوش طبعی کرنے اور ناجائز خوش طبعی سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خوش طبعی:
یہاں موضوع کی مناسبت سے سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خوش طبعی کے چار واقعات بھی ملاحظہ ہوں ۔
(1)…حضرت زید بن اسلم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :حضرت اُمِّ ایمن رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا:میرے شوہر آپ کو بلا رہے ہیں ۔ارشاد فرمایا’’کون،وہی جس کی آنکھ میں سفیدی ہے؟عرض کی:اللہ تعالیٰ کی قسم !ان کی آنکھ میں سفیدی نہیں ہے ۔ارشاد فرمایا’’کیوں نہیں ، بے شک اس کی آنکھ میں سفیدی ہے ۔عرض کی :اللہ تعالیٰ کی قسم!ایسا نہیں ہے۔نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ کیاکوئی ایسا ہے جس کی آنکھ میں سفیدی نہ ہو(آپ نے اس سے وہ سفیدی مراد لی تھی جو آنکھ کے سیاہ حلقے کے ارد گرد ہوتی ہے)۔(سبل الہدی والرشاد، جماع ابواب صفاتہ المعنویۃ، الباب الثانی والعشرون فی مزاحہ... الخ، ۷ / ۱۱۴)
(2)… حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہم میں گھلے ملے رہتے ، حتّٰی کہ میرے چھوٹے بھائی سے فرماتے’’ ابو عمیر !چڑیا کا کیا ہوا۔( بخاری، کتاب الادب، باب الانبساط الی الناس، ۴ / ۱۳۴، الحدیث: ۶۱۲۹)
(3)… حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : ایک شخض نے رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے سواری مانگی تو ارشاد فرمایا’’ ہم تمہیں اونٹنی کے بچے پر سوار کریں گے۔اس نے عرض کی : میں اونٹنی کے بچے کا کیا کروں گا؟ رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا’’ اونٹ کو اونٹنی ہی تو جنم دیتی ہے۔ (ترمذی، کتاب البرّ والصّلۃ، باب ما جاء فی المزاح، ۳ / ۳۹۹، الحدیث: ۱۹۹۹)
(4)… حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ایک بوڑھی عورت سے فرمایا:’’ جنت میں کوئی بوڑھی عورت نہ جائے گی۔انہوں نے (پریشان ہو کر) عرض کی : تو پھر ان کا کیا بنے گا؟ (حالانکہ) وہ عورت قرآن پڑھاکرتی تھی۔تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ کیا تم نے قرآن میں یہ نہیں پڑھا کہ
’’اِنَّاۤ اَنْشَاْنٰهُنَّ اِنْشَآءًۙ(۳۵) فَجَعَلْنٰهُنَّ اَبْكَارًا‘‘(واقعہ:۳۵،۳۶)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک ہم نے ان جنتی عورتوں کو ایک خاص انداز سے پیدا کیا۔توہم نے انہیں کنواریاں بنایا۔( مشکوٰۃ المصابیح، کتاب الآداب، باب المزاح، الفصل الثانی، ۲ / ۲۰۰، الحدیث: ۴۸۸۸)
{وَ لَا تَلْمِزُوْۤا اَنْفُسَكُمْ: اورآپس میں کسی کوطعنہ نہ دو۔} یعنی قول یا اشارے کے ذریعے ایک دوسرے پر عیب نہ لگائو کیونکہ مومن ایک جان کی طرح ہے جب کسی دوسرے مومن پرعیب لگایاجائے گاتوگویااپنے پرہی عیب لگایاجائے گا۔( روح المعانی، الحجرات، تحت الآیۃ: ۱۱، ۱۳ / ۴۲۴)
طعنہ دینے کی مذمت:
اَحادیث میں طعنہ دینے کی بہت مذمت بیان کی گئی ہے ،یہاں اس سے متعلق 2اَحادیث ملاحظہ ہوں ،
(1)… حضرت ابودرداء رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’بہت لعن طعن کرنے والے قیامت کے دن نہ گواہ ہوں گے نہ شفیع۔( مسلم، کتاب البرّ والصّلۃ والآداب، باب النّہی عن لعن الدّواب وغیرہا، ص۱۴۰۰، الحدیث: ۸۵(۲۵۹۸))
(2)… حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’مومن نہ طعن کرنے والا ہوتا ہے، نہ لعنت کرنے والا، نہ فحش بکنے والا بے ہودہ ہوتا ہے۔( ترمذی، کتاب البرّ والصّلۃ، باب ما جاء فی اللّعنۃ، ۳ / ۳۹۳، الحدیث: ۱۹۸۴)
اللہ تعالیٰ ہمیں طعنہ دینے سے محفوظ فرمائے،اٰمین۔
{وَ لَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِ: اور ایک دوسرے کے برے نام نہ رکھو۔} برے نام رکھنے سے کیا مراد ہے ا س کے بارے میں مفسرین کے مختلف اَقوال ہیں ،ان میں سے تین قول درج ذیل ہیں :
(1)…حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا’’ ایک دوسرے کے برے نام رکھنے سے مراد یہ ہے کہ اگر کسی آدمی نے کسی برائی سے توبہ کرلی ہو تو اسے توبہ کے بعد اس برائی سے عار دلا ئی جائے ۔یہاں آیت میں اس چیز سے منع کیا گیا ہے ۔
حدیث ِپاک میں اس عمل کی وعید بھی بیان کی گئی ہے ،جیسا کہ حضر ت معاذ بن جبل رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس شخص نے اپنے بھائی کواس کے کسی گناہ پرشرمندہ کیا تووہ شخص اس وقت تک نہیں مرے گاجب تک کہ وہ اس گناہ کا اِرتکاب نہ کرلے ۔(ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ...الخ، ۵۳-باب، ۴ / ۲۲۶، الحدیث: ۲۵۱۳)
(2)…بعض علماء نے فرمایا ’’برے نام رکھنے سے مراد کسی مسلمان کو کتا ،یا گدھا، یا سور کہنا ہے ۔
(3)…بعض علماء نے فرمایا کہ اس سے وہ اَلقاب مراد ہیں جن سے مسلمان کی برائی نکلتی ہو اور اس کو ناگوار ہو (لیکن تعریف کے القاب جو سچے ہوں ممنوع نہیں ، جیسے کہ حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کا لقب عتیق اور حضرت عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کا فاروق اور حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کا ذوالنُّورَین اور حضرت علی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کا ابوتُراب اور حضرت خالد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کا سَیْفُ اللہ تھا) اور جو اَلقاب گویا کہ نام بن گئے اور اَلقاب والے کو ناگوار نہیں وہ القاب بھی ممنوع نہیں ،جیسے اَعمَش اور اَعرَج وغیرہ۔(خازن، الحجرات، تحت الآیۃ: ۱۱، ۴ / ۱۷۰)
{بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْاِیْمَانِ: مسلمان ہونے کے بعد فاسق کہلانا کیا ہی برا نام ہے۔} ارشاد فرمایا: مسلمان ہونے کے بعد فاسق کہلانا کیا ہی برا نام ہے تو اے مسلمانو، کسی مسلمان کی ہنسی بنا کر یا اس کو عیب لگا کر یا اس کا نام بگاڑ کر اپنے آپ کو فاسق نہ کہلاؤ اور جو لوگ ان تمام افعال سے توبہ نہ کریں تو وہی ظالم ہیں ۔(خازن، الحجرات، تحت الآیۃ: ۱۱، ۴ / ۱۷۰)
آیت ’’ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا یَسْخَرْ قَوْمٌ‘‘سے معلوم ہونے والے مسائل:
اس آیت سے تین مسئلے معلوم ہوئے
(1)… مسلمانوں کی کوئی قوم ذلیل نہیں ،ہر مومن عزت والا ہے ۔
(2)… عظمت کا دار و مدار محض نسب پر نہیں تقویٰ و پرہیز گاری پر ہے ۔
(3)… مسلمان بھائی کو نسبی طعنہ دینا حرام اور مشرکوں کا طریقہ ہے آج کل یہ بیماری مسلمانوں میں عام پھیلی ہوئی ہے۔ نسبی طعنہ کی بیماری عورتوں میں زیادہ ہے، انہیں اس آیت سے سبق لینا چاہیے نہ معلوم بارگاہِ الٰہی میں کون کس سے بہتر ہو۔